Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر8

بھائی صاحب آپ سے ایک بات کہو اگر برا نہ مانے تو۔۔۔؟؟عالیہ بیگم انکو چاۓ تھماتے ہوۓ بولی۔۔۔اور ادھر عالیہ کے اس جملے پر تو جیسے پاکیزہ کی جان حلق میں آگئی۔۔۔کیونکہ وہ جب بھی ایسے پوچھتی تھی کوئی نہ کوئی اسکے بچو کے نقصان کی بات کرتی تھی۔۔۔پاکیزہ اب اوپر جانے کے بجاۓ ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔۔۔ جس پر عالیہ کو بھی حیرانگی ہوئی تھی۔۔۔ جی بھابھی کہے۔۔۔چھوٹی ہونے کے باوجود بھی شنواری صاحب اسے بہت ہی عزت سے بولایا کرتے تھے۔۔۔ ہماری ہانیہ بہت معصوم ہے اسے دنیا کا ابھی کچھ نہیں پتا۔۔۔کوئی بھی اسے اپنی باتو سے قابو کر سکتا ہے۔۔بات کرتے ہوئے وہ رکی۔۔۔ میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔۔۔؟؟شنواری صاحب نے نا سمجھی سے پوچھا۔۔ بھائی صاحب شازل بھی تو وہی رہتا ہے جہاں ہانیہ پڑھنے گئی ہے۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ جیسے اسکی ماں نے آپ پر جھوٹا الزام لگایا تھا صرف آپ سے شادی کرنے کے لیے ویسے کہی۔۔۔عالیہ نے شنواری صاحب کا غصےسے چہرہ سرخ ہوتا دیکھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔۔۔ اور ادھر پاکیزہ کا دل کیا تھا ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کریں۔۔۔ بھابھی آپ جو بھی کہنا چاہتی ہیں۔۔۔سیدھا کہے۔۔پاکیزہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولی۔۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بہن مونا کو ہانیہ بہت پسند ہے ۔۔۔اور ماشاءالله سے میرا بھانجا عماد پڑھا لکھا ہے اپنا کاروبار بھی ہے۔۔اور بہت ہی تمیز دار بھی۔۔تو کیوں نہ ہم اپنی بیٹی ہانیہ کا رشتہ اس سے طے کر دے۔۔۔ تو اس میں شازل بیچ میں کیسے آگیا۔۔۔۔؟؟پاکیزہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔شنواری صاحب ابھی تک ضبط کیے بیٹھے تھے۔۔ ارے میں تو اسلیے کہہ رہی تھی کہ اگر اماں جی نے کہہ دیا کہ اسکا رشتہ شازل سے کر دے تو پھر آپ کیا جواب دے گئے بھائی صاحب۔۔۔ویسے بھی آپ انکی کوئی بات نہیں ٹالتے۔۔۔ بھابھی ہانیہ آپ کی بھی بیٹی ہے آپکو جیسا آپ کو ٹھیک لگے کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔۔۔ انکے جاتے ہی پاکیزہ عالیہ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ تم اپنی بیٹی کی فکر کرو میری بیٹیوں کی نہیں۔۔۔محبت کی آڑ میں جو تم دونو میاں بیوی میرے شوہر سے حاصل کرنا چاہتے ہو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔لیکن میں اپنی اولاد کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دوں گی سمجھی تم۔۔۔اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ ایک پل کے بھی نہیں رکی۔۔۔ یہ تو وقت ہی بتائیں گا پاکیزہ بیگم میں کیا کرونگی۔۔۔اب تمہیں کیا بتاؤں۔۔تمہاری بیٹیوں کی فکر کروں گی تبھی تو اپنی بیٹی کی شادی اچھی جگہ کر سکوگی۔۔۔۔ بڑبڑاتے ہوۓ کچن میں چلی گئی ۔۔۔


زرینہ۔۔۔؟؟ جی ہانیہ بی بی۔۔۔زرینہ جو کچن میں اپنے کام میں مصروف تھی۔۔اس کے آواز پر ادب سے جواب دیا۔۔۔ نانو کہا ہیں۔۔؟؟نظر نہیں آرہیں۔۔؟؟ہانیہ نے نانو کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ ہانیہ بی بی۔۔۔ ان کے گاؤں میں کسی کی فوتگی ہوگئی ہے وہ وہاں گئی ہیں۔۔۔اور شازل صاحب بھی ان کے ساتھ ہی گئے ہیں۔۔۔زرینہ نے تفصیل سے بتایا۔۔۔۔ تو کب آئے گئیں۔۔۔؟؟ بڑی بیگم صہبا تو دو دن رہے گی۔۔لیکن شازل صاحب آجاۓ گے۔۔۔اس نے آگاہ کیا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ہانیہ مختصر جواب دے کر کچن سے چلی گئی۔۔۔اسے تو اتنا تجسس تھا کہ وہ آتے ہی نانو سے پوچھے گی کے شازل نے انھیں کیا جواب دیا۔۔۔ ہانیہ بی بی۔۔۔؟؟زرینہ اس قریب آکر کھڑی ہوئی۔۔۔ جی۔۔۔؟؟ہانیہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ آپ کا کھانا لگاؤں۔۔۔؟؟ شازل آئے گے تب لگادیجیے گا۔۔۔ پر وہ تو بہت لیٹ آئے گے۔۔۔اور جب وہ لیٹ آتے ہیں تو وہ آکر کھانا نہیں کھاتے۔۔۔ مجھے بھی بھوک نہیں ہے۔۔۔میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔ لیکن آپ۔۔۔؟؟اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی ہانیہ جا چکی تھی۔۔۔


شازل ہانیہ کے کمرے میں گیا تو وہ آنکھیں موندیں سینے سے کتاب لگاۓ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔رات کا ایک بج رہا تھا اس وقت اسے خود بھی اچھا نہیں لگا تھا ہانیہ کے کمرے میں آنا۔۔۔پر آج اسکا ہانیہ سے باتیں کرنے کا بہت دل چاہ رہا تھا۔۔۔اور دل کے آگئے مجبور ہوکر اس سے ملنے آیا تھا۔۔۔پر اسے سوتا پا کر شازل نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔وہ واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ہانیہ نے اسے آواز دی۔۔ اب آگئے ہیں تو بیٹھ بھی جاۓ۔۔۔ ہانیہ کی آواز پر شازل مڑا اور مسکرا دیا۔۔ تم جگ رہی ہو مجھے لگا سو گئی ۔۔۔میں تمہارے لیے کوفی لایا تھا۔۔۔شازل نے کوفی کا مگ اسکے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ جی بس پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی۔۔۔ہانیہ کی تو حیرانگی سے نیند ہی اڑ گئی تھی کہ شازل اس سے ملنے آیا ہے۔۔اور تو اور وہ اپنے ہاتھو سے اسکے لیے کوفی بنا کر لایا تھا۔۔۔ تمہاری پڑھائی کیسی جارہی ہے۔۔۔؟؟شازل کا انداز بلکل نارمل تھا۔۔۔ بہت اچھی۔۔۔آپ بیٹھ جاۓ۔۔۔یو دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ کیوں کھڑے ہیں۔۔۔ ہانی روم سے باہر چلے اگر تمہیں برا نا لگے تو۔۔۔؟؟مجھے ایسے تمہارے کمرے میں کھڑا ہونا اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ویسے بھی کوئی گھر کا ملازم دیکھیں گا تو پتا نہیں کیا سمجھے گااوپر سے نانو بھی گھر نہیں ہیں۔۔۔ ہانیہ نے اسکی بات پر ایک نظر اس پر ڈالی۔۔۔پھر بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ چلیں۔۔؟؟ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ شازل نے اثبات میں سر ہلایا۔۔اور دونو کمرے سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھے۔۔۔ آج آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔؟؟میرا مطلب ہے آج آپ ویسے نہیں لگ رہے جیسے میں آپ کو چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔ہانیہ کو شازل کا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔وہ جب سے یہاں آئی تھی شازل نے اس سے ایسے بات نہیں کی تھی۔۔۔اور آج وہ اس سے اس قدر محبت سے بات کر رہا تھا کہ ہانیہ نے اس سے پوچھ ہی لیا۔۔۔ میری طبیعت بلکل ٹھیک ہے۔۔۔کیاتم چاہتی ہو میں ویسا بن جاؤ جیسا تم چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔؟؟شازل سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ اسکی نظروں کی تپیش خود پر محسوس ہوتے ہی ہانیہ نے اپنی نظریں جھکا لی۔۔۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی۔۔۔آپ کو پتا ہے مجھے تو آپ بہت ہی کھڑوس لگ رہے تھے۔۔۔سڑیل ٹائپ۔۔۔پتا ہے مجھے ایسے لوگو سے سخت نفرت ہے جو بہت مغرور ہوتے ہیں۔۔۔ہانیہ اپنی ہی دھن میں بول رہی تھی۔۔بینا سوچے کے وہ یہ لفظ شازل کے لیے کہہ رہی تھی جو اسکے بلکل سامنے بیٹھے بہت غور سے اسکی باتیں سن رہا ہے۔۔۔ تو کیا اب تم مجھ سے نفرت کرتی ہو۔۔۔۔؟؟شازل نے سنجیدگی سےپوچھا۔۔۔ شازل کے سوال پر ہانیہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔جیسے اسے اس سوال کی امید نہیں تھی۔۔۔ پھر ایک پل کے لیے سمبھل کر بولی۔۔۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ سے نفرت کرسکتی ہوں۔۔۔ہانیہ نے اسکے سوال کے جواب میں الٹا سوال کر دیا۔۔۔ ہانیہ کے دوبارہ سوال کرنے پر شازل خاموش ہوگیا ہے جیسے اس سوال کا وہ جواب دینا نہیں چاہتا۔۔۔ کچھ دیر دونو خاموش رہے۔۔۔پھر شازل نے لاؤنج چھائی خاموشی کو توڑا۔۔۔ ہانی۔۔؟؟ جی۔۔ہانیہ اب اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ مجھ سے کبھی نفرت مت کرنا پلیز۔۔۔تمہاری نفرت برداشت نہیں کر پاؤنگا۔۔۔عجیب سہ درد تھا شازل کے لہجے میں جسے ہانیہ نے محسوس کیا تھا۔۔۔ اس سے پہلے ہانیہ اسے کوئی جواب دیتی وہ اٹھ کر جا چکا تھا۔۔۔ نفرت کیسے کر سکتی ہوں شازل۔۔۔؟؟میں جب بھی کرونگی آپ سے محبت ہی کرونگی۔۔۔یہ بات تو وہ اس سے کہنا چاہتی تھی پر شاید ابھی شازل یہ بات نہیں سننا چاہتا تھا۔۔۔۔

   0
0 Comments